تقلید اب میں حضرت واعظ کی کیوں کروں
ساقی نے دے دیا مجھے فتویٰ جواز کا
عزیز لکھنوی
تری کوشش ہم اے دل سعئ لا حاصل سمجھتے ہیں
سر منزل تجھے بیگانۂ منزل سمجھتے ہیں
عزیز لکھنوی
تم نے چھیڑا تو کچھ کھلے ہم بھی
بات پر بات یاد آتی ہے
عزیز لکھنوی
تمہیں ہنستے ہوئے دیکھا ہے جب سے
مجھے رونے کی عادت ہو گئی ہے
عزیز لکھنوی
اداسی اب کسی کا رنگ جمنے ہی نہیں دیتی
کہاں تک پھول برسائے کوئی گور غریباں پر
عزیز لکھنوی
وہی حکایت دل تھی وہی شکایت دل
تھی ایک بات جہاں سے بھی ابتدا کرتے
عزیز لکھنوی
یہ مشورہ بہم اٹھے ہیں چارہ جو کرتے
کہ اب مریض کو اچھا تھا قبلہ رو کرتے
عزیز لکھنوی
یہ تیری آرزو میں بڑھی وسعت نظر
دنیا ہے سب مری نگہ انتظار میں
عزیز لکھنوی
زبان دل کی حقیقت کو کیا بیاں کرتی
کسی کا حال کسی سے کہا نہیں جاتا
عزیز لکھنوی