EN हिंदी
عزیز لکھنوی شیاری | شیح شیری

عزیز لکھنوی شیر

54 شیر

دل کی آلودگیٔ زخم بڑھی جاتی ہے
سانس لیتا ہوں تو اب خون کی بو آتی ہے

عزیز لکھنوی




دل نہیں جب تو خاک ہے دنیا
اصل جو چیز تھی وہی نہ رہی

عزیز لکھنوی




دل سمجھتا تھا کہ خلوت میں وہ تنہا ہوں گے
میں نے پردہ جو اٹھایا تو قیامت نکلی

عزیز لکھنوی




دعائیں مانگی ہیں ساقی نے کھول کر زلفیں
بسان دست کرم ابر دجلہ بار برس

عزیز لکھنوی




دنیا کا خون دور محبت میں ہے سفید
آواز آ رہی ہے لب جوئے شیر سے

عزیز لکھنوی




آئینہ چھوڑ کے دیکھا کئے صورت میری
دل مضطر نے مرے ان کو سنورنے نہ دیا

عزیز لکھنوی




حادثات دہر میں وابستۂ ارباب درد
لی جہاں کروٹ کسی نے انقلاب آ ہی گیا

عزیز لکھنوی




ہم تو دل ہی پر سمجھتے تھے بتوں کا اختیار
نسب کعبہ میں بھی اب تک ایک پتھر رہ گیا

عزیز لکھنوی




ہمیشہ سے مزاج حسن میں دقت پسندی ہے
مری دشواریاں آسان ہونا سخت مشکل ہے

عزیز لکھنوی