ناوک تازہ دل پر مارا جنگ پرانی جاری کی
آج ہوا نے زخم کہن میں ڈوب کے تازہ کاری کی
جس کیاری میں پھول کھلے تھے ناگ پھنی سی لگتی ہے
موسم گل نے جاتے جاتے دیکھا کیا دشواری کی
ایک طرف روئے جاناں تھا جلتی آنکھ میں ایک طرف
سیاروں کی راکھ میں ملتی رات تھی اک بے داری کی
کوئے بیاں کی ویرانی سے میرا بھی جی بیٹھ گیا
منہ موڑے آواز کھڑی ہے ساز راہ سپاری کی
غزل
ناوک تازہ دل پر مارا جنگ پرانی جاری کی
عزیز حامد مدنی