سب پیچ و تاب شوق کے طوفان تھم گئے
وہ زلف کھل گئی تو ہواؤں کے خم گئے
ساری فضا تھی وادئ مجنوں کی خواب ناک
جو روشناس مرگ محبت تھے کم گئے
وحشت سی ایک لالۂ خونیں کفن سے تھی
اب کے بہار آئی تو سمجھو کہ ہم گئے
اب جن کے غم کا تیرا تبسم ہے پردہ دار
آخر وہ کون تھے کہ بہ مژگان نم گئے
اے جادہ خرام مہ و مہر دیکھنا
تیری طرف بھی آج ہوا کے قدم گئے
میں اور تیرے بند قبا کی حدیث عشق
نا دیدہ خواب عشق کئی بے رقم گئے
ایسی کوئی خبر تو نہیں ساکنان شہر
دریا محبتوں کے جو بہتے تھے تھم گئے
غزل
سب پیچ و تاب شوق کے طوفان تھم گئے
عزیز حامد مدنی