جی ہے بہت اداس طبیعت حزیں بہت
ساقی کو پیالۂ مے آتشیں بہت
دو گز زمیں فریب وطن کے لیے ملی
ویسے تو آسماں بھی بہت ہیں زمیں بہت
ایسی بھی اس ہوا میں ہے اک کافری کی رو
بجھ بجھ گئے ہیں شعلۂ ایمان و دیں بہت
بے باکیوں میں فرد بہت تھی وہ چشم ناز
دل کی حریف ہو کے اٹھی شرمگیں بہت
پیکار خیر و شر سے گزر آئی زندگی
تیری وفا کا دور تھا عہد آفریں بہت
فریاد تھی چکیدۂ خون گلو تمام
نغمہ بھی ہم صفیر تھا کار حزیں بہت
اے دل تجھی پہ ختم نہیں داستان عشق
افسانہ خواں ملے مژہ و آستیں بہت
ایسی ہوا میں گھر سے نکلنے کی جا نہ تھی
ورنہ تمام بات کا آتا یقیں بہت
اے انقلاب رنگ طبیعت سنبھالنا
ہم بھی اٹھے ہیں بزم سے اب کے حزیں بہت

غزل
جی ہے بہت اداس طبیعت حزیں بہت
عزیز حامد مدنی