وہ ایک رو جو لب نکتہ چیں میں ہوتی ہے
سخن وہی دل اندوہ گیں میں ہوتی ہے
کوئی وہ شک کا اندھیرا کہ جس کی جست کے بعد
چمک سی سلسلہ ہائے یقیں میں ہوتی ہے
بہار چاک گریباں میں ٹھہر جاتی ہے
جنوں کی موج کوئی آستیں میں ہوتی ہے
وہ خاک انجم و مہتاب کو نصیب نہیں
جو موج مرگ و نمو کی زمیں میں ہوتی ہے
غنودہ دین بزرگاں میں اب وہ لو نہ رہی
جو عہد نو کے غم آتشیں میں ہوتی ہے
یہ رات طائر ہجرت زدہ غنیمت ہے
طلوع صبح سواد کمیں میں ہوتی ہے
کبھی کبھی تو حریفانہ کوئی آتش سنگ
فروغ پا کے لباس نگیں میں ہوتی ہے
غزل
وہ ایک رو جو لب نکتہ چیں میں ہوتی ہے
عزیز حامد مدنی