EN हिंदी
مرے وجود کا محور چمکتا رہتا ہے | شیح شیری
mere wajud ka mehwar chamakta rahta hai

غزل

مرے وجود کا محور چمکتا رہتا ہے

اظہر ہاشمی

;

مرے وجود کا محور چمکتا رہتا ہے
اسی سند سے مقدر چمکتا رہتا ہے

کسی مزار پہ چھائی ہے خاک مفلس کی
کسی مزار کا پتھر چمکتا رہتا ہے

یہ کیسی رسم ہلاکت بھی پا گئی ہے رواج
یہ کیسے خون کا منظر چمکتا رہتا ہے

مری نگاہ کو منزل کی روشنی ہے عزیز
بلا سے میل کا پتھر چمکتا رہتا ہے

جو اٹھ کے خاک سے پرواز کا اجالا بنا
اسی پرندے کا شہ پر چمکتا رہتا ہے

مٹا کے حوصلے باطل کے آؤ سوئے حق
قدم بڑھاؤ کہ رہبر چمکتا رہتا ہے

نجوم شمس قمر اور جلنے لگتے ہیں
سخن وروں میں جب اظہرؔ چمکتا رہتا ہے