EN हिंदी
شہر کو آتش رنجش کے دھواں تک دیکھوں | شیح شیری
shahr ko aatish-e-ranjish ke dhuan tak dekhun

غزل

شہر کو آتش رنجش کے دھواں تک دیکھوں

اظہر ہاشمی

;

شہر کو آتش رنجش کے دھواں تک دیکھوں
مقتل زیست کو آخر میں کہاں تک دیکھوں

پھر یہ مانوں گا خموشی پہ زوال آیا ہے
دل دھڑکنے کی صدا جب میں زباں تک دیکھوں

یہ تمنا ہے خدا عالم ہستی میں ترے
میں عیاں دیکھنا چاہوں تو نہاں تک دیکھوں

جب کہ اب رابطہ رکھنے کا بہت ہے امکاں
پھر بھی ویرانیاں پھیلیں ہیں جہاں تک دیکھوں

کیا تصور مری آنکھوں نے نوازا ہے مجھے
خود کو دیکھوں تو میں احساس زیاں تک دیکھوں

مانتا ہوں کہ ہے ظلمات ازل اس کا نصیب
رات کی ضد ہے اسے اپنی فغاں تک دیکھوں

یہ بھی اسلاف کی تہذیب ہے اظہرؔ میں یہاں
اپنا کردار تمام امن اماں تک دیکھوں