خاموش زباں سے جب تقریر نکلتی ہے
لگتا ہے کہ پیروں سے زنجیر نکلتی ہے
ٹوٹا ہوا بدھنا تھا شاید کہ وضو کا ہو
ایسی بھی تو پرکھوں کی جاگیر نکلتی ہے
جو داغ ہے سجدے کا پیشانیٔ مومن پر
اس داغ سے ہو کر ہی تقدیر نکلتی ہے
ملتی ہے خوشی سب کو جیسے ہی کہیں سے بھی
بھولی ہوئی بچپن کی تصویر نکلتی ہے
مجروح قلم کو جب ہر لفظ دعا دے دیں
تا عمر قلم سے پھر تحریر نکلتی ہے
ہو امن یہاں ہم میں سوچا تھا مگر اظہرؔ
دیکھا تو ہر اک گھر سے شمشیر نکلتی ہے
غزل
خاموش زباں سے جب تقریر نکلتی ہے
اظہر ہاشمی