ہمیشہ واحد یکتا بیاں سے گزرا ہے
خدا کا ذکر جب اپنی زباں سے گزرا ہے
لکیر کھینچ کے نور گماں سے گزرا ہے
مجھے یقیں ہے کوئی آسماں سے گزرا ہے
چمکتا رہتا ہے دونوں جہاں کی منزل پر
وہ ایک شخص جو ہر امتحاں سے گزرا ہے
بس اتنا بول رہی چارہ گر کی خاموشی
بلا کا درد دل ناتواں سے گزرا ہے
تو کیا ہوا جو اب آنکھوں میں قید ہے صحرا
ترے فراق میں دریا یہاں سے گزرا ہے
اسی پہ صبر ہے مجھ کو ہر ایک دور یہاں
بہار آنے سے پہلے خزاں سے گزرا ہے
خموش لہجے میں اظہرؔ کو ہاشمی نے کہا
ترا وجود بھی اک خانداں سے گزرا ہے
غزل
ہمیشہ واحد یکتا بیاں سے گزرا ہے
اظہر ہاشمی