جفاؤں کی نمائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں
ستم گر کی ستائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں
مجھے تنہائی پڑھنی ہے مگر خاموش لہجے میں
یہی محفل کی خواہش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں
مرے افکار پہ بولے بڑی تہذیب سے زاہد
مقدر آزمائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں
یہ جو بے حال سا منظر یہ جو بیمار سے ہم تم
سیاست کی نوازش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں
ادھر ہے جام ہاتھوں میں لبوں پہ مسکراہٹ ہے
ادھر جب خوں کی بارش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں
ملازم بننا تھا کس کو ملازم بن گیا کوئی
ہنر زیر سفارش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں
زباں آزاد ہے جو بھی وہی تو زندہ ہے لیکن
زباں پہ کیسی بندش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں
عداوت کی یہاں اظہرؔ جو اک چنگاری اٹھی تھی
وہ بنتی جاتی آتش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں
غزل
جفاؤں کی نمائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں
اظہر ہاشمی