گزرے ہوئے لمحات کو اب ڈھونڈ رہا ہوں
میں اپنے مقدر میں غضب ڈھونڈ رہا ہوں
سجدے کا سبب جان کے شیریں ہے پریشاں
فرہاد نے کہہ ڈالا کے رب ڈھونڈ رہا ہوں
وہ ہیں کہ نبھانے بھی لگے وصل کے آداب
میں ہوں کہ تغافل کا سبب ڈھونڈ رہا ہوں
ظالم مجھے پھر سیکڑوں غم دینے لگا ہے
میں زندگی میں ایک خوشی جب ڈھونڈ رہا ہوں
کیوں مجھ کو سخنور کہو پاگل نہ کہو تم
ہر بزم میں جو بزم ادب ڈھونڈ رہا ہوں
آزردہ تھی غربت میں مرے دوست کی ہجرت
کچھ میں بھی پریشاں ہوں عرب ڈھونڈ رہا ہوں
بس ایک پتہ ہی تو مجھے یاد ہے اظہرؔ
دیوانہ ہے کیا تجھ کو میں کب ڈھونڈ رہا ہوں
غزل
گزرے ہوئے لمحات کو اب ڈھونڈ رہا ہوں
اظہر ہاشمی