بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا
وہ پابند قفس جو فطرتا آزاد ہوتا ہے
اصغر گونڈوی
بے محابا ہو اگر حسن تو وہ بات کہاں
چھپ کے جس شان سے ہوتا ہے نمایاں کوئی
اصغر گونڈوی
بستر خاک پہ بیٹھا ہوں نہ مستی ہے نہ ہوش
ذرے سب ساکت و صامت ہیں ستارہ خاموش
اصغر گونڈوی
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
I go laughing playing with waves of adversity
If life were to be easy, unbearable it would be
اصغر گونڈوی
چھٹ جائے اگر دامن کونین تو کیا غم
لیکن نہ چھٹے ہاتھ سے دامان محمد
اصغر گونڈوی
آلام روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا
اصغر گونڈوی
ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے
لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے
اصغر گونڈوی
حل کر لیا مجاز حقیقت کے راز کو
پائی ہے میں نے خواب کی تعبیر خواب میں
اصغر گونڈوی
ہم اس نگاہ ناز کو سمجھے تھے نیشتر
تم نے تو مسکرا کے رگ جاں بنا دیا
اصغر گونڈوی