ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے
لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے
معنی آدم کجا اور صورت آدم کجا
یہ نہاں خانے میں تھا اب تک نہاں خانے میں ہے
خرمن بلبل تو پھونکا عشق آتش رنگ نے
رنگ کو شعلہ بنا کر کون پروانے میں ہے
جلوۂ حسن پرستش گرمئ حسن نیاز
ورنہ کچھ کعبے میں رکھا ہے نہ بت خانے میں ہے
رند خالی ہاتھ بیٹھے ہیں اڑا کر جزو و کل
اب نہ کچھ شیشے میں ہے باقی نہ پیمانے میں ہے
میں یہ کہتا ہوں فنا کو بھی عطا کر زندگی
تو کمال زندگی کہتا ہے مر جانے میں ہے
جس پہ بت خانہ تصدق جس پہ کعبہ بھی نثار
ایک صورت ایسی بھی سنتے ہیں بت خانے میں ہے
کیا بہار نقش پا ہے اے نیاز عاشقی
لطف سر رکھنے میں کیا سر رکھ کے مر جانے میں ہے
بے خودی میں دیکھتا ہوں بے نیازی کی ادا
کیا فنائے زندگی خود حسن بن جانے میں ہے
غزل
ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے
اصغر گونڈوی