ہر اک جگہ تری برق نگاہ دوڑ گئی
غرض یہ ہے کہ کسی چیز کو قرار نہ ہو
اصغر گونڈوی
اک ادا اک حجاب اک شوخی
نیچی نظروں میں کیا نہیں ہوتا
all, shyness, mischief and coquetry
in her lowered glance, are there to see
اصغر گونڈوی
عشق کی بیتابیوں پر حسن کو رحم آ گیا
جب نگاہ شوق تڑپی پردۂ محمل نہ تھا
اصغر گونڈوی
جینا بھی آ گیا مجھے مرنا بھی آ گیا
پہچاننے لگا ہوں تمہاری نظر کو میں
اصغر گونڈوی
کچھ ملتے ہیں اب پختگی عشق کے آثار
نالوں میں رسائی ہے نہ آہوں میں اثر ہے
اصغر گونڈوی
کیا کیا ہیں درد عشق کی فتنہ طرازیاں
ہم التفات خاص سے بھی بد گماں رہے
اصغر گونڈوی
کیا مستیاں چمن میں ہیں جوش بہار سے
ہر شاخ گل ہے ہاتھ میں ساغر لیے ہوئے
اصغر گونڈوی
لذت سجدۂ ہائے شوق نہ پوچھ
ہائے وہ اتصال ناز و نیاز
اصغر گونڈوی
لوگ مرتے بھی ہیں جیتے بھی ہیں بیتاب بھی ہیں
کون سا سحر تری چشم عنایت میں نہیں
اصغر گونڈوی