داستاں ان کی اداؤں کی ہے رنگیں لیکن
اس میں کچھ خون تمنا بھی ہے شامل اپنا
اصغر گونڈوی
عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں
ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا
اصغر گونڈوی
عارض نازک پہ ان کے رنگ سا کچھ آ گیا
ان گلوں کو چھیڑ کر ہم نے گلستاں کر دیا
اصغر گونڈوی
اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی
کچھ قید رسم نے جسے ایماں بنا دیا
اصغر گونڈوی
عکس کس چیز کا آئینۂ حیرت میں نہیں
تیری صورت میں ہے کیا جو میری صورت میں نہیں
اصغر گونڈوی
اللہ رے چشم یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
اصغر گونڈوی
اصغرؔ غزل میں چاہئے وہ موج زندگی
جو حسن ہے بتوں میں جو مستی شراب میں
اصغر گونڈوی
اصغرؔ حریم عشق میں ہستی ہی جرم ہے
رکھنا کبھی نہ پاؤں یہاں سر لئے ہوئے
اصغر گونڈوی
اصغرؔ سے ملے لیکن اصغرؔ کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے
اصغر گونڈوی