EN हिंदी
کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے | شیح شیری
koi mahmil-nashin kyun shad ya nashad hota hai

غزل

کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے

اصغر گونڈوی

;

کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے
غبار قیس خود اٹھتا ہے خود برباد ہوتا ہے

قفس کیا حلقہ ہائے دام کیا رنج اسیری کیا
چمن پر مٹ گیا جو ہر طرح آزاد ہوتا ہے

یہ سب نا آشنائے لذت پرواز ہیں شاید
اسیروں میں ابھی تک شکوۂ صیاد ہوتا ہے

بہار سبزہ و گل ہے کرم ہوتا ہے ساقی کا
جواں ہوتی ہے دنیا مے کدہ آباد ہوتا ہے

بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا
وہ پابند قفس جو فطرتا آزاد ہوتا ہے

بہار انجام سمجھوں اس چمن کا یا خزاں سمجھوں
زبان برگ گل سے مجھ کو کیا ارشاد ہوتا ہے

ازل میں اک تجلی سے ہوئی تھی بے خودی طاری
تمہیں کو میں نے دیکھا تھا کچھ ایسا یاد ہوتا ہے

سمائے جا رہے ہیں اب وہ جلوے دیدہ و دل میں
یہ نظارہ ہے یا ذوق نظر برباد ہوتا ہے

زمانہ ہے کہ خوگر ہو رہا ہے شور و شیون کا
یہاں وہ درد جو بے نالہ و فریاد ہوتا ہے

یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے

یہاں مستوں کے سر الزام ہستی ہی نہیں اصغرؔ
پھر اس کے بعد ہر الزام بے بنیاد ہوتا ہے