میں خود کو مسمار کر کے ملبہ بنا رہا ہوں
یہی بنا سکتا ہوں لہٰذا بنا رہا ہوں
کسی کے سینے میں بھر رہا ہوں میں اپنی سانسیں
کسی کے کتبے کو اپنا کتبہ بنا رہا ہوں
بہت بھلی لگتی ہے اسے بھی مری اداسی
خوشی خوشی خود کو دل گرفتہ بنا رہا ہوں
ہجوم کو میرے قہقہوں کی خبر نہیں ہے
بنا ہوا ہوں کہ میں تماشا بنا رہا ہوں
ہر ایک چہرے پہ خال و خد کی نمائشیں ہیں
میں خال و خد کے بغیر چہرہ بنا رہا ہوں
کھلی ہوئی ہے جو کوئی آسان راہ مجھ پر
میں اس سے ہٹ کے اک اور رستہ بنا رہا ہوں
فلک سے اوپر بھی ایک چھت ہے زمین ایسی
فلک کے اس پار ایک زینہ بنا رہا ہوں
مری توجہ بس ایک نقطے پہ مرتکز ہے
میں اپنی قوت کو ایک ذرہ بنا رہا ہوں
غزل
میں خود کو مسمار کر کے ملبہ بنا رہا ہوں
انجم سلیمی