کہہ دو کوئی ساقی سے کہ ہم مرتے ہیں پیاسے
گر مے نہیں دے زہر ہی کا جام بلا سے
جو کچھ ہے سو ہے اس کے تغافل کی شکایت
قاصد سے ہے تکرار نہ جھگڑا ہے صبا سے
دلالہ نے امید دلائی تو ہے لیکن
دیتے نہیں کچھ دل کو تسلی یہ دلاسے
ہے وصل تو تقدیر کے ہاتھ اے شہ خوباں
یاں ہیں تو فقط تیری محبت کے ہیں پیاسے
پیاسے ترے سرگشتہ ہیں جو راہ طلب میں
ہونٹوں کو وہ کرتے نہیں تر آب بقا سے
در گزرے دوا سے تو بھروسے پہ دعا کے
در گزریں دعا سے بھی دعا ہے یہ خدا سے
اک درد ہو بس آٹھ پہر دل میں کہ جس کو
تخفیف دوا سے ہو نہ تسکین دعا سے
حالیؔ دل انساں میں ہے گم دولت کونین
شرمندہ ہوں کیوں غیر کے احسان و عطا سے
جب وقت پڑے دیجیے دستک در دل پر
جھکئے فقرا سے نہ جھمکیے امرا سے
غزل
کہہ دو کوئی ساقی سے کہ ہم مرتے ہیں پیاسے
الطاف حسین حالی