EN हिंदी
علی اکبر ناطق شیاری | شیح شیری

علی اکبر ناطق شیر

15 شیر

کسی کا سایہ رہ گیا گلی کے عین موڑ پر
اسی حبیب سائے سے بنی ہماری داستاں

علی اکبر ناطق




کوئی نہ رستہ ناپ سکا ہے، ریت پہ چلنے والوں کا
اگلے قدم پر مٹ جائے گا پہلا نقش ہمارا بھی

علی اکبر ناطق




مختصر بات تھی، پھیلی کیوں صبا کی مانند
درد مندوں کا فسانہ تھا، اچھالا کس نے

علی اکبر ناطق




سرد راتوں کی ہوا میں اڑتے پتوں کے مثیل
کون تیرے شب نوردوں کو سنبھالے شہر میں

علی اکبر ناطق




وہ شخص امر ہے، جو پیوے گا دو چاندوں کے نور
اس کی آنکھیں سدا گلابی جو دیکھے اک لال

علی اکبر ناطق




زرد پھولوں میں بسا خواب میں رہنے والا
دھند میں الجھا رہا نیند میں چلنے والا

علی اکبر ناطق