کسے کجاوے محملوں کے اور جاگا رات کا تارا بھی
چھوڑ دی بستی ناقوں نے خاموش ہوا نقارا بھی
چاند سی آنکھیں کھیل رہی تھیں سرخ پہاڑ کی اوٹوں سے
پورب اور سے تاک رہا تھا اٹھ کر ابر کا پارہ بھی
قافلے گرد سفر میں ڈوبے، گھنٹیوں کی آواز گھٹی
آخری اونٹ کی پشت پہ ڈالا رات نے سیاہ غرارہ بھی
شہر کے چوک میں ویرانی ہے آگ بجھی، اندھیر ہوا
راکھ سروں میں ڈال کے بیٹھے، آج ترے آوارہ بھی
کوئی نہ رستہ ناپ سکا ہے، ریت پہ چلنے والوں کا
اگلے قدم پر مٹ جائے گا پہلا نقش ہمارا بھی

غزل
کسے کجاوے محملوں کے اور جاگا رات کا تارا بھی
علی اکبر ناطق