EN हिंदी
کسے کجاوے محملوں کے اور جاگا رات کا تارا بھی | شیح شیری
kase kajawe mahmalon ke aur jaga raat ka tara bhi

غزل

کسے کجاوے محملوں کے اور جاگا رات کا تارا بھی

علی اکبر ناطق

;

کسے کجاوے محملوں کے اور جاگا رات کا تارا بھی
چھوڑ دی بستی ناقوں نے خاموش ہوا نقارا بھی

چاند سی آنکھیں کھیل رہی تھیں سرخ پہاڑ کی اوٹوں سے
پورب اور سے تاک رہا تھا اٹھ کر ابر کا پارہ بھی

قافلے گرد سفر میں ڈوبے، گھنٹیوں کی آواز گھٹی
آخری اونٹ کی پشت پہ ڈالا رات نے سیاہ غرارہ بھی

شہر کے چوک میں ویرانی ہے آگ بجھی، اندھیر ہوا
راکھ سروں میں ڈال کے بیٹھے، آج ترے آوارہ بھی

کوئی نہ رستہ ناپ سکا ہے، ریت پہ چلنے والوں کا
اگلے قدم پر مٹ جائے گا پہلا نقش ہمارا بھی