چاندی والے، شیشے والے، آنکھوں والے شہر میں
کھو گیا اک شخص مجھ سے، دیکھے بھالے شہر میں
مندروں کے صحن میں صدیوں پرانی گھنٹیاں
دیویوں کے حسن کے کہنہ حوالے شہر میں
سرد راتوں کی ہوا میں اڑتے پتوں کے مثیل
کون تیرے شب نوردوں کو سنبھالے شہر میں
کانچ کی شاخوں پہ لٹکے تیری وحشت کے ثمر
تیری وحشت کے ثمر بھی ہم نے پالے شہر میں
دل کے ریشوں سے ردائے نور بنتے مٹ گئے
شب کی فصلوں میں نہیں آساں اجالے شہر میں
غزل
چاندی والے، شیشے والے، آنکھوں والے شہر میں
علی اکبر ناطق