دن کا سمے ہے، چوک کنویں کا اور بانکوں کے جال
ایسے میں ناری تو نے چلی پھر تیتری والی چال
جامنوں والے دیس کے لڑکے، ٹیڑھے ان کے طور
پنکھ ٹٹولیں طوطیوں کے وہ، پھر کر ہر ہر ڈال
وہ شخص امر ہے، جو پیوے گا دو چاندوں کے نور
اس کی آنکھیں سدا گلابی جو دیکھے اک لال
شام کی ٹھنڈی رت نے بھرے ہیں آب حیات سے نین
مونگروں والے باغ نے اوڑھی گہری کاسنی شال
غزل
دن کا سمے ہے، چوک کنویں کا اور بانکوں کے جال
علی اکبر ناطق