ازل کے قصہ گو نے دل کی جو اتاری داستاں
کہیں کہیں سے اس نے تو بہت سنواری داستاں
ہوا سے جو سیربیں پرانے موسموں کی ہے
سنا سنا کے تھک گئی مری تمہاری داستاں
کسی کا سایہ رہ گیا گلی کے عین موڑ پر
اسی حبیب سائے سے بنی ہماری داستاں
مری جبیں پہ سانحات نے لکھی ہیں عرضیاں
یہ عرضیاں ہیں حسرتوں کی ایک بھاری داستاں
دل خراب و خستہ پر نظر نہ تو نے کی بحال
کہ اس مکاں کی تیرے گوش سو گزاری داستاں
غزل
ازل کے قصہ گو نے دل کی جو اتاری داستاں
علی اکبر ناطق