زرد پھولوں میں بسا خواب میں رہنے والا
دھند میں الجھا رہا نیند میں چلنے والا
دھوپ کے شہر مری جاں سے لپٹ کر روئے
سرد شاموں کی طرف میں تھا نکلنے والا
کر گیا آپ کی دیوار کے سائے پہ یقیں
میں درختوں کے ہرے دیس کا رہنے والا
اس کے تالاب کی بطخیں بھی کنول بھی روئے
ریت کے ملک میں ہجرت تھا جو کرنے والا
غزل
زرد پھولوں میں بسا خواب میں رہنے والا
علی اکبر ناطق