مری ابتدا مری انتہا کہیں اور ہے
میں شمارۂ مہ و سال میں نہیں آؤں گا
احمد محفوظ
اب اس مکاں میں نیا کوئی در نہیں کرنا
یہ کام سہل بہت ہے مگر نہیں کرنا
احمد محفوظ
کسی سے کیا کہیں سنیں اگر غبار ہو گئے
ہمیں ہوا کی زد میں تھے ہمیں شکار ہو گئے
احمد محفوظ
کہاں کسی کو تھی فرصت فضول باتوں کی
تمام رات وہاں ذکر بس تمہارا تھا
احمد محفوظ
ہم کو آوارگی کس دشت میں لائی ہے کہ اب
کوئی امکاں ہی نہیں لوٹ کے گھر جانے کا
احمد محفوظ
گم شدہ میں ہوں تو ہر سمت بھی گم ہے مجھ میں
دیکھتا ہوں وہ کدھر ڈھونڈنے جاتا ہے مجھے
احمد محفوظ
دیکھنا ہی جو شرط ٹھہری ہے
پھر تو آنکھوں میں کوئی منظر ہو
احمد محفوظ
دامن کو ذرا جھٹک تو دیکھو
دنیا ہے کچھ اور شے نہیں ہے
احمد محفوظ
چڑھا ہوا تھا وہ دریا اگر ہمارے لیے
تو دیکھتے ہی رہے کیوں اتر نہیں گئے ہم
احمد محفوظ