اب اس مکاں میں نیا کوئی در نہیں کرنا
یہ کام سہل بہت ہے مگر نہیں کرنا
ذرا ہی دیر میں کیا جانے کیا ہو رات کا رنگ
سو اب قیام سر رہ گزر نہیں کرنا
بیاں تو کر دوں حقیقت اس ایک رات کی سب
پہ شرط یہ ہے کسی کو خبر نہیں کرنا
رفوگری کو یہ موسم ہے سازگار بہت
ہمیں جنوں کو ابھی جامہ در نہیں کرنا
خبر ہے گرم کسی قافلے کے لٹنے کی
یہ واقعہ ہے تو سیر و سفر نہیں کرنا
غزل
اب اس مکاں میں نیا کوئی در نہیں کرنا
احمد محفوظ