EN हिंदी
اب اس مکاں میں نیا کوئی در نہیں کرنا | شیح شیری
ab is makan mein naya koi dar nahin karna

غزل

اب اس مکاں میں نیا کوئی در نہیں کرنا

احمد محفوظ

;

اب اس مکاں میں نیا کوئی در نہیں کرنا
یہ کام سہل بہت ہے مگر نہیں کرنا

ذرا ہی دیر میں کیا جانے کیا ہو رات کا رنگ
سو اب قیام سر رہ گزر نہیں کرنا

بیاں تو کر دوں حقیقت اس ایک رات کی سب
پہ شرط یہ ہے کسی کو خبر نہیں کرنا

رفوگری کو یہ موسم ہے سازگار بہت
ہمیں جنوں کو ابھی جامہ در نہیں کرنا

خبر ہے گرم کسی قافلے کے لٹنے کی
یہ واقعہ ہے تو سیر و سفر نہیں کرنا