عطا اسی کی ہے یہ شہد و شور کی توفیق
وہی گلیم میں یہ نان بے جویں لایا
افضال احمد سید
اس دل کو کسی دست ادا سنج میں رکھنا
ممکن ہے یہ میزان کم و بیش جلا دے
افضال احمد سید
کمان خانۂ افلاک کے مقابل بھی
میں اس سے اور وہ پھر کج کلاہ مجھ سے ہوا
افضال احمد سید
کمان شاخ سے گل کس ہدف کو جاتے ہیں
نشیب خاک میں جا کر مجھے خیال آیا
افضال احمد سید
کتاب خاک پڑھی زلزلے کی رات اس نے
شگفت گل کے زمانے میں وہ یقیں لایا
افضال احمد سید
کتاب عمر سے سب حرف اڑ گئے میرے
کہ مجھ اسیر کو ہونا ہے ہم کلام اس کا
افضال احمد سید
میں چاہتا ہوں مجھے مشعلوں کے ساتھ جلا
کشادہ تر ہے اگر خیمۂ ہوا تجھ پہ
افضال احمد سید
میں دل کو اس کی تغافل سرا سے لے آیا
اور اپنے خانۂ وحشت میں زیر دام رکھا
افضال احمد سید
اسے عجب تھا غرور شگفت رخساری
بہار گل کو بہت بے ہنر کہا اس نے
افضال احمد سید