سحاب سبز نہ طاؤس نیلمیں لایا
وہ شخص لوٹ کے اک اور سر زمیں لایا
عطا اسی کی ہے یہ شہد و شور کی توفیق
وہی گلیم میں یہ نان بے جویں لایا
اسی کی چاپ ہے اکھڑے ہوئے کھڑنجے پر
وہ خشت و خواب کو بیرون ازمگیں لایا
وہ پیش برش شمشیر بھی گواہی میں
کف بلند میں اک شاخ یاسمیں لایا
کتاب خاک پڑھی زلزلے کی رات اس نے
شگفت گل کے زمانے میں وہ یقیں لایا
غزل
سحاب سبز نہ طاؤس نیلمیں لایا
افضال احمد سید