ہوا ہے قطع مرا دست معجزہ تجھ پہ
گیاہ زرد بہت ہے یہ سانحہ تجھ پہ
میں چاہتا ہوں مجھے مشعلوں کے ساتھ جلا
کشادہ تر ہے اگر خیمۂ ہوا تجھ پہ
میں اپنے کشتہ چراغوں کا پل بنا دیتا
کسی بھی شام مری نہر پیش پا تجھ پہ
یہ کوئی کم ہے کہ اے ریگ شیشۂ ساعت
اگا رہا ہوں میں اک نخل آئینہ تجھ پہ
کہ اجنبی ہوں بہت سایۂ شجر کے لیے
سو ریگ زرد میں ہوتا ہوں رونما تجھ پہ
پکارتی ہے مجھے خاک خشت پیوستہ
یہ نصب ہونے کا ہے ختم سلسلہ تجھ پہ
غزل
ہوا ہے قطع مرا دست معجزہ تجھ پہ
افضال احمد سید