EN हिंदी
گرا تو گر کے سر خاک ابتذال آیا | شیح شیری
gira to gir ke sar-e-KHak-e-ibtizal aaya

غزل

گرا تو گر کے سر خاک ابتذال آیا

افضال احمد سید

;

گرا تو گر کے سر خاک ابتذال آیا
میں تیغ تیز تھا لیکن مجھے زوال آیا

عجب ہوا کہ ستارہ شناس سے مل کر
شکست انجم نوخیز کا خیال آیا

میں خاک سرد پہ سویا تو میرے پہلو میں
پھر ایک خواب شکست آئنہ مثال آیا

کمان شاخ سے گل کس ہدف کو جاتے ہیں
نشیب خاک میں جا کر مجھے خیال آیا

کوئی نہیں تھا مگر ساحل تمنا پر
ہوائے شام میں جب رنگ اندمال آیا

یہی ہے وصل دل کم معاملہ کے لیے
کہ آئنے میں وہ خورشید خد و خال آیا