یہ نہر آب بھی اس کی ہے ملک شام اس کا
جو حشر مجھ پہ بپا ہے وہ اہتمام اس کا
سپاہ تازہ بھی اس کی صف نگاہ سے ہے
صفائے سینۂ شمشیر پر ہے نام اس کا
امان خیمۂ رم خوردگاں میں باقی ہے
کہ نا تمام ہے اک شوق قتل عام اس کا
کتاب عمر سے سب حرف اڑ گئے میرے
کہ مجھ اسیر کو ہونا ہے ہم کلام اس کا
دل شکستہ کو لانا ہے رو بہ رو اس کے
جو مجھ سے نرم ہوا کوئی بند دام اس کا
میں اس کے ہاتھ سے کس زخم میں کمی رکھوں
شروع ناز بھی اس کا ہے اختتام اس کا
غزل
یہ نہر آب بھی اس کی ہے ملک شام اس کا
افضال احمد سید