کوئی نہ حرف نوید و خبر کہا اس نے
وہی فسانۂ آشفتہ تر کہا اس نے
شراکت خس و شعلہ ہے کاروبار جنوں
زیاں کدے میں کس انجام پر کہا اس نے
اسے بھی ناز غلط کردۂ تغافل تھا
کہ خواب و خیمہ فروشی کو گھر کہا اس نے
تمام لوگ جسے آسمان کہتے ہیں
اگر کہا تو اسے بال و پر کہا اس نے
اسے عجب تھا غرور شگفت رخساری
بہار گل کو بہت بے ہنر کہا اس نے
یہ گل ہیں اور یہ ستارے ہیں اور یہ میں ہوں
بس ایک دن مجھے تعلیم کر کہا اس نے
مری مثال تھی سفاکی تمنا میں
سپردگی میں مجھے قتل کر کہا اس نے
میں آفتاب قیامت تھا سو طلوع ہوا
ہزار مطلع نا ساز تر کہا اس نے
غزل
کوئی نہ حرف نوید و خبر کہا اس نے
افضال احمد سید