آغوش سیں سجن کے ہمن کوں کیا کنار
ماروں گا اس رقیب کوں چھڑیوں سے گود گود
آبرو شاہ مبارک
عشق کی صف منیں نمازی سب
آبروؔ کو امام کرتے ہیں
آبرو شاہ مبارک
عشق کا تیر دل میں لاگا ہے
درد جو ہووتا تھا بھاگا ہے
آبرو شاہ مبارک
اک عرض سب سیں چھپ کر کرنی ہے ہم کوں تم سیں
راضی ہو گر کہو تو خلوت میں آ کے کر جاں
آبرو شاہ مبارک
ہوا ہے ہند کے سبزوں کا عاشق
نہ ہوویں آبروؔ کے کیوں ہرے بخت
آبرو شاہ مبارک
ہو گئے ہیں پیر سارے طفل اشک
گریہ کا جاری ہے اب لگ سلسلا
آبرو شاہ مبارک
غم سیں اہل بیت کے جی تو ترا کڑھتا نہیں
یوں عبث پڑھتا پھرا جو مرثیہ تو کیا ہوا
آبرو شاہ مبارک
غم سے ہم سوکھ جب ہوئے لکڑی
دوستی کا نہال ڈال کاٹ
آبرو شاہ مبارک