داغ سیں کیوں نہ دل اجالا ہو
چشم کی روشنی سیاہی ہے
آبرو شاہ مبارک
فانیٔ عشق کوں تحقیق کہ ہستی ہے کفر
دم بدم زیست نیں میری مجھے زنار دیا
آبرو شاہ مبارک
دور خاموش بیٹھا رہتا ہوں
اس طرح حال دل کا کہتا ہوں
آبرو شاہ مبارک
دوانے دل کوں میرے شہر سیں ہرگز نہیں بنتی
اگر جنگل کا جانا ہو تو اس کی بات سب بن جا
آبرو شاہ مبارک
دلی میں درد دل کوں کوئی پوچھتا نہیں
مجھ کوں قسم ہے خواجہ قطب کے مزار کی
آبرو شاہ مبارک
دل دار کی گلی میں مکرر گئے ہیں ہم
ہو آئے ہیں ابھی تو پھر آ کر گئے ہیں ہم
آبرو شاہ مبارک
دل کب آوارگی کو بھولا ہے
خاک اگر ہو گیا بگولا ہے
آبرو شاہ مبارک
دکھائی خواب میں دی تھی ٹک اک منہ کی جھلک ہم کوں
نہیں طاقت انکھیوں کے کھولنے کی اب تلک ہم کوں
آبرو شاہ مبارک
ڈر خدا سیں خوب نئیں یہ وقت قتل عام کوں
صبح کوں کھولا نہ کر اس زلف خون آشام کوں
آبرو شاہ مبارک