ڈر خدا سیں خوب نئیں یہ وقت قتل عام کوں
صبح کوں کھولا نہ کر اس زلف خون آشام کوں
آبرو شاہ مبارک
آغوش سیں سجن کے ہمن کوں کیا کنار
ماروں گا اس رقیب کوں چھڑیوں سے گود گود
آبرو شاہ مبارک
بیارے ترے نین کوں آہو کہے جو کوئی
وہ آدمی نہیں ہے حیوان ہے بچارا
آبرو شاہ مبارک
بوسے میں ہونٹ الٹا عاشق کا کاٹ کھایا
تیرا دہن مزے سیں پر ہے پے ہے کٹورا
آبرو شاہ مبارک
بوساں لباں سیں دینے کہا کہہ کے پھر گیا
پیالہ بھرا شراب کا افسوس گر گیا
آبرو شاہ مبارک
اے سرد مہر تجھ سیں خوباں جہاں کے کانپے
خورشید تھرتھرایا اور ماہ دیکھ ہالا
آبرو شاہ مبارک
اگر دیکھے تمہاری زلف لے ڈس
الٹ جاوے کلیجا ناگنی کا
آبرو شاہ مبارک
افسوس ہے کہ بخت ہمارا الٹ گیا
آتا تو تھا پے دیکھ کے ہم کوں پلٹ گیا
آبرو شاہ مبارک
اب دین ہوا زمانہ سازی
آفاق تمام دہریا ہے
آبرو شاہ مبارک