مل گئیں آپس میں دو نظریں اک عالم ہو گیا
جو کہ ہونا تھا سو کچھ انکھیوں میں باہم ہو گیا
آبرو شاہ مبارک
محراب ابرواں کوں وسمہ ہوا ہے زیور
کیوں کر کہیں نہ ان کوں اب زینۃ المساجد
آبرو شاہ مبارک
میں نبل تنہا نہ اس دنیا کی صحبت سیں ہوا
رستموں کوں کر دیا ہے ناتواں انزال نیں
آبرو شاہ مبارک
معلوم اب ہوا ہے آ ہند بیچ ہم کوں
لگتے ہیں دلبراں کے لب رنگ پاں سے کیا خوب
آبرو شاہ مبارک
کیوں تری تھوڑی سی گرمی سیں پگھل جاوے ہے جاں
کیا تو نیں سمجھا ہے عاشق اس قدر ہے موم کا
آبرو شاہ مبارک
کیوں نہ آ کر اس کے سننے کو کریں سب یار بھیڑ
آبروؔ یہ ریختہ تو نیں کہا ہے دھوم کا
آبرو شاہ مبارک
کیوں ملامت اس قدر کرتے ہو بے حاصل ہے یہ
لگ چکا اب چھوٹنا مشکل ہے اس کا دل ہے یہ
آبرو شاہ مبارک
کیوں کر بڑا نہ جانے منکر نپے کو اپنے
انکار اس کا نانا اور شیخ ہے نواسا
آبرو شاہ مبارک
کیا سبب تیرے بدن کے گرم ہونے کا سجن
عاشقوں میں کون جلتا تھا گلے کس کے لگا
آبرو شاہ مبارک