مجھے بھی اک ستم گر کے کرم سے
ستم سہنے کی عادت ہو گئی ہے
آتش بہاولپوری
مخالفوں کو بھی اپنا بنا لیا تو نے
عجیب طرح کا جادو تری زبان میں تھا
آتش بہاولپوری
تمہیں تو اپنی جفاؤں کی خوب داد ملی
مری وفاؤں کا مجھ کو کوئی صلہ نہ ملا
آتش بہاولپوری
امید ان سے وفا کی تو خیر کیا کیجے
جفا بھی کرتے نہیں وہ کبھی جفا کی طرح
آتش بہاولپوری
یہ مے خانہ ہے مے خانہ تقدس اس کا لازم ہے
یہاں جو بھی قدم رکھنا ہمیشہ با وضو رکھنا
آتش بہاولپوری
یہ ساری باتیں ہیں درحقیقت ہمارے اخلاق کے منافی
سنیں برائی نہ ہم کسی کی نہ خود کسی کو برا کہیں ہم
آتش بہاولپوری
زباں پہ شکوۂ بے مہریٔ خدا کیوں ہے؟
دعا تو مانگیے آتشؔ کبھی دعا کی طرح
آتش بہاولپوری