کمال حسن کا جس سے تمہیں خزانہ ملا
مجھے اسی سے یہ انداز عاشقانہ ملا
جبین شوق کو آسودگی نصیب ہوئی
سر نیاز کو جب تیرا آستانہ ملا
تمام عمر سہاروں کی جستجو میں رہا
وہ بد نصیب جسے تیرا آسرا نہ ملا
کمی نہ تھی مری دنیا میں آشناؤں کی
ستم تو یہ ہے کوئی درد آشنا نہ ملا
صنم کدوں میں تو اصنام جلوہ فرما تھے
خدا کے گھر میں بھی مجھ کو کہیں خدا نہ ملا
تمہیں تو اپنی جفاؤں کی خوب داد ملی
مری وفاؤں کا مجھ کو کوئی صلہ نہ ملا
چمن میں رہ کے بھی آتشؔ خزاں نصیبوں کو
کبھی بہار کا پیغام جاں فزا نہ ملا
غزل
کمال حسن کا جس سے تمہیں خزانہ ملا
آتش بہاولپوری