ستم کو ان کا کرم کہیں ہم جفا کو مہر و وفا کہیں ہم
زمانہ اس بات پر بضد ہے کہ ناروا کو روا کہیں ہم
کچھ ایسا سودا ہے سب کے سر میں مزاج بگڑے ہوئے ہیں سب کے
کوئی بھی سنتا نہیں کسی کی کہیں کسی سے تو کیا کہیں ہم
یہ ساری باتیں ہیں درحقیقت ہمارے اخلاق کے منافی
سنیں برائی نہ ہم کسی کی نہ خود کسی کو برا کہیں ہم
نہ جانے ہم سے ہے کیا توقع؟ نہیں کسی طرح جان بخشی
زمانہ اس پہ بھی معترض ہے اگر خدا کو خدا کہیں ہم
ہماری آہیں بھی بے اثر ہیں ہمارے نالے بھی نارسا ہیں
وہ درد جس کا نہ ہو مداوا اسے نہ کیوں لا دوا کہیں ہم
نہ دن کو ہے کچھ سکوں میسر نہ شب کو آتی ہے نیند ہم کو
یہی محبت کی ابتدا ہے تو پھر کسے انتہا کہیں ہم
یہی تقاضا ہے مصلحت کا اسی میں ہے عافیت بھی آتشؔ
کسی سے دل کو جو رنج پہنچے اسے خدا کی رضا کہیں ہم
غزل
ستم کو ان کا کرم کہیں ہم جفا کو مہر و وفا کہیں ہم
آتش بہاولپوری