خموش بیٹھے ہو کیوں ساز بے صدا کی طرح
کوئی پیام تو دو رمز آشنا کی طرح
کہیں تمہاری روش خار و گل پہ بار نہ ہو
ریاض دہر سے گزرے چلو صبا کی طرح
نیاز و عجز ہی معراج آدمیت ہیں
بڑھاؤ دست سخاوت بھی التجا کی طرح
جو چاہتے ہو بدلنا مزاج طوفاں کو
تو ناخدا پہ بھروسا کرو خدا کی طرح
مجھے ہمیشہ رہ زیست کے دوراہوں پر
اک اجنبی ہے جو ملتا ہے آشنا کی طرح
تمام عمر رہا سابقہ یزیدوں سے
مرے لیے تو یہ دنیا ہے کربلا کی طرح
امید ان سے وفا کی تو خیر کیا کیجے
جفا بھی کرتے نہیں وہ کبھی جفا کی طرح
یہ دہر بھی تو ہے مے خانۂ الست نما
رہو یہاں بھی کسی رند پارسا کی طرح
زباں پہ شکوۂ بے مہریٔ خدا کیوں ہے؟
دعا تو مانگیے آتشؔ کبھی دعا کی طرح
غزل
خموش بیٹھے ہو کیوں ساز بے صدا کی طرح
آتش بہاولپوری