سوال کرتی کئی آنکھیں منتظر ہیں یہاں
جواب آج بھی ہم سوچ کر نہیں آئے
آشفتہ چنگیزی
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
علامہ اقبال
شوق کہتا ہے پہنچ جاؤں میں اب کعبہ میں جلد
راہ میں بت خانہ پڑتا ہے الٰہی کیا کروں
امیر مینائی
ہے عجب سی کشمکش دل میں اثرؔ
کس کو بھولیں کس کو رکھیں یاد ہم
اثر اکبرآبادی
یہ سوچتے ہی رہے اور بہار ختم ہوئی
کہاں چمن میں نشیمن بنے کہاں نہ بنے
i kept contemplating, spring came and went away
where in the garden should I make my nest today
اثر لکھنوی
سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں
فراق گورکھپوری
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
حفیظ جالندھری