خبر تو دور امین خبر نہیں آئے
بہت دنوں سے وہ لشکر ادھر نہیں آئے
یہ بات یاد رکھیں گے تلاشنے والے
جو اس سفر پہ گئے لوٹ کر نہیں آئے
طلسم اونگھتی راتوں کا توڑنے والے
وہ مخبران سحر پھر نظر نہیں آئے
ضرور تجھ سے بھی اک روز اوب جائیں گے
خدا کرے کہ تری رہ گزر نہیں آئے
سوال کرتی کئی آنکھیں منتظر ہیں یہاں
جواب آج بھی ہم سوچ کر نہیں آئے
اداس سونی سی چھت اور دو بجھی آنکھیں
کئی دنوں سے پھر آشفتہؔ گھر نہیں آئے
غزل
خبر تو دور امین خبر نہیں آئے
آشفتہ چنگیزی