EN हिंदी
میر تسکینؔ دہلوی شیاری | شیح شیری

میر تسکینؔ دہلوی شیر

10 شیر

ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی

میر تسکینؔ دہلوی




اتنی نہ کیجے جانے کی جلدی شب وصال
دیکھے ہیں میں نے کام بگڑتے شتاب میں

میر تسکینؔ دہلوی




جس وقت نظر پڑتی ہے اس شوخ پہ تسکیںؔ
کیا کہیے کہ جی میں مرے کیا کیا نہیں ہوتا

میر تسکینؔ دہلوی




کرتا ہوں تیری زلف سے دل کا مبادلہ
ہر چند جانتا ہوں یہ سودا برا نہیں

میر تسکینؔ دہلوی




خوبصورت نہ ہو کوئی تو نہ ہو بدنامی
سچ تو یہ ہے کہ برا ہوتا ہے اچھا ہونا

میر تسکینؔ دہلوی




پوچھے جو تجھ سے کوئی کہ تسکیںؔ سے کیوں ملا
کہہ دیجو حال دیکھ کے رحم آ گیا مجھے

میر تسکینؔ دہلوی




شب وصال میں سننا پڑا فسانۂ غیر
سمجھتے کاش وہ اپنا نہ رازدار مجھے

میر تسکینؔ دہلوی




تسکیںؔ نے نام لے کے ترا وقت مرگ آہ
کیا جانے کیا کہا تھا کسی نے سنا نہیں

میر تسکینؔ دہلوی




تسکینؔ کروں کیا دل مضطر کا علاج اب
کم بخت کو مر کر بھی تو آرام نہ آیا

میر تسکینؔ دہلوی