تم غیر سے ملو نہ ملو میں تو چھوڑ دوں
گر اس وفا پہ کوئی کہے بے وفا مجھے
سچ ہے تو بدگماں ہے سمجھتا ہے کچھ کا کچھ
بوسہ نہ لینا تھا ترے آئینے کا مجھے
انصاف کر خراب نہ پھرتا میں در بدر
ملتی جو تیرے گوشۂ خاطر میں جا مجھے
اس بت کی میں دکھاؤں گا تصویر واعظو
پھر کیا کہے گا داور روز جزا مجھے
کیوں ان سے وقت قتل کیا شکوہ غیر کا
کرنی تھی مغفرت ہی کی اپنی دعا مجھے
پوچھے جو تجھ سے کوئی کہ تسکیںؔ سے کیوں ملا
کہہ دیجو حال دیکھ کے رحم آ گیا مجھے
غزل
تم غیر سے ملو نہ ملو میں تو چھوڑ دوں (ردیف .. ے)
میر تسکینؔ دہلوی