EN हिंदी
کیا کیا مزے سے رات کی عہد شباب میں | شیح شیری
kya kya maze se raat ki ahd-e-shabab mein

غزل

کیا کیا مزے سے رات کی عہد شباب میں

میر تسکینؔ دہلوی

;

کیا کیا مزے سے رات کی عہد شباب میں
چھوڑوں نہ عمر رفتہ گر آ جائے خواب میں

اک دل کے واسطے یہ پھنسے وہ عذاب میں
رہتے ہیں اپنی زلف ہی کے پیچ و تاب میں

ہے شوق وصل تجھ سے لپٹتا ہوں بار بار
ورنہ یہ مستیاں تو نہیں تھیں شراب میں

اتنی نہ کیجے جانے کی جلدی شب وصال
دیکھے ہیں میں نے کام بگڑتے شتاب میں

ہو جائے چاک سینہ کہ دل گھٹ کے مر چلا
اے چارہ جو کسی کو پھنسا مت عذاب میں

کر بحر و بر کی ہستئ موہوم پر نظر
تھوڑی سی خاک ڈال دی چشم پر آب میں

تب قتل گہہ میں قتل عدو کو چلے ہیں وہ
میرا لہو ملا کے پیا جب شراب میں

کن محنتوں سے وصل پہ راضی ہوئے ہیں وہ
سو نامہ بر ہوئے جو سوال و جواب میں

اختر شماریوں میں نکلتا ہے دم کہیں
تسکیںؔ تمہیں کو دخل نہیں ہے حساب میں