اگر پھولوں کی خواہش ہے تو سن لو
کسی کی راہ میں کانٹے نہ رکھنا
تابش مہدی
اجنبی راستوں پر بھٹکتے رہے
آرزوؤں کا اک قافلا اور میں
تابش مہدی
دیر تک مل کے روتے رہے راہ میں
ان سے بڑھتا ہوا فاصلا اور میں
تابش مہدی
فرشتوں میں بھی جس کے تذکرے ہیں
وہ تیرے شہر میں رسوا بہت ہے
تابش مہدی
ہم کو خبر ہے شہر میں اس کے سنگ ملامت ملتے ہیں
پھر بھی اس کے شہر میں جانا کتنا اچھا لگتا ہے
تابش مہدی
مرے عیبوں کو گنوایا تو سب نے
کسی نے میری غم خواری نہیں کی
تابش مہدی
پڑوسی کے مکاں میں چھت نہیں ہے
مکاں اپنے بہت اونچے نہ رکھنا
تابش مہدی
تکوگے راہ سہاروں کی تم میاں کب تک
قدم اٹھاؤ کہ تقدیر انتظار میں ہے
تابش مہدی
یہ مانا وہ شجر سوکھا بہت ہے
مگر اس میں ابھی سایا بہت ہے
تابش مہدی