جہان دل میں سناٹا بہت ہے
سمندر آج کل پیاسا بہت ہے
یہ مانا وہ شجر سوکھا بہت ہے
مگر اس میں ابھی سایا بہت ہے
فرشتوں میں بھی جس کے تذکرے ہیں
وہ تیرے شہر میں رسوا بہت ہے
بہ ظاہر پر سکوں ہے ساری بستی
مگر اندر سے ہنگاما بہت ہے
اسے اب بھول جانا چاہتا ہوں
کبھی میں نے جسے چاہا بہت ہے
وہ پتھر کیا کسی کے کام آتا
مگر سب نے اسے پوجا بہت ہے
مرا گھر تو اجڑ جائے گا لیکن
تمہارے گھر کو بھی خطرا بہت ہے
مرا دشمن مرے اشعار سن کر
نہ جانے آج کیوں رویا بہت ہے
غزل
جہان دل میں سناٹا بہت ہے
تابش مہدی