EN हिंदी
ستار سید شیاری | شیح شیری

ستار سید شیر

6 شیر

کب بن باس کٹے اس شہر کے لوگوں کا
قفل کھلیں کب جانے بند مکانوں کے

ستار سید




لہو میں پھول کھلانے کہاں سے آتے ہیں
نئے خیال نہ جانے کہاں سے آتے ہیں

ستار سید




سحر کو ساتھ اڑا لے گئی صبا جیسے
یہ کس نے کر دیئے رستے دھواں دھواں میرے

ستار سید




سمندروں کو سکھاتا ہے کون طرز خرام
زمیں کی تہہ میں خزانے کہاں سے آتے ہیں

ستار سید




شاید اب ختم ہوا چاہتا ہے عہد سکوت
حرف اعجاز کی تاثیر سے لب جاگتے ہیں

ستار سید




یوں اہتمام رد سحر کر دیا گیا
ہر روشنی کو شہر بدر کر دیا گیا

ستار سید