لہو میں پھول کھلانے کہاں سے آتے ہیں
نئے خیال نہ جانے کہاں سے آتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں ہر شام طاق مژگاں پر
چراغ یاد جلانے کہاں سے آتے ہیں
خزاں کی شاخ میں حیراں ہے آنکھ کی کونپل
پلٹ کے عہد پرانے کہاں سے آتے ہیں
سمندروں کو سکھاتا ہے کون طرز خرام
زمیں کی تہہ میں خزانے کہاں سے آتے ہیں
زمام ابر گریزاں ہے کس کے ہاتھوں میں
محیط خوشہ میں دانے کہاں سے آتے ہیں
سفر نصیب پرندو! تمہارے ہونٹوں پر
یہ خوش گوار ترانے کہاں سے آتے ہیں
خوشی کے عہد چلے جاتے ہیں کہاں سیدؔ
اداسیوں کے زمانے کہاں سے آتے ہیں
غزل
لہو میں پھول کھلانے کہاں سے آتے ہیں
ستار سید